پرونده:Khadim Razmi خادم رزمی.jpg

Page contents not supported in other languages.
از ویکی‌پدیا، دانشنامهٔ آزاد

پروندهٔ اصلی(۹۲۱ × ۱٬۱۷۶ پیکسل، اندازهٔ پرونده: ۷۰۹ کیلوبایت، نوع MIME پرونده: image/jpeg)

خلاصه

توضیح
English: خادم رزمی اردو اور پنجابی زبان کے پاکستان کے شاعر ہیں ،
He was born in February 2, 1932 at Jhang.His real name was Khadim Hussain and he used Razmi as poetic alias.He completed his high school studies from Govt. middle school chak haider abad kabirwala in 1945.In school,his favorite school teachers were Maulvi Fazal Din and Lala Ram Laal Sargbashi who helped him to develop poetic tastes.He later joined education department as school teacher until his retirement.As per his service record,he did job for 63 years and 8 months and got retirement in 1991.He spent most of his job time in Tulumba.He had 7 sons and 4 daughters.He is buried in Kabirwala,district Khanewal ,Pakistan.

His first published book name is "Zar-e-Khawab" or " زرِ خواب (Published in 1991) ". His second published book is in Punjabi and is called " Man Warti" (published in 1994).Some of his books are still unpublished which include آشوبِ سفر , Jazai Naat etc.Normally his poetry used to publish in monthly"Fanoon" and "Al-Kalaam".

He received two awards on his Punjabi poetry book "Man warti" which are (1)Waris shah award 1994 (2) Khawaja Fareed Award 1998

Zar-e-Khawab....Book by Khadim Razmi

Some of his Ghazals are وھی ہیں پیاسیں' برھنہ پائی' سُلگتی راھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم رزمیؔ

وھی ہیں پیاسیں' برھنہ پائی' سُلگتی راھیں' سراب اب بھی نزول فرما ھیں ھم پہ بھُوکیں ' اذیتیں اور عذاب اب بھی

نہ کھول سکتے ہیں بند آنکھیں نہ دیکھ پاتے ھیں راہ اپنی سلگتے سُورج کے رُوپ میں ھے اندھیری شب کا عتاب اب بھی

کسے بتائیں کہ خیمہ بردوش پھرتے عمریں گذر گئی ھیں وطن میں رہ کر بھی بے وطن ھیں ھم ایسے خانہ خراب اب بھی

بھرے جہاں سے ملیں ھیں گرچہ ھمیں تو کانٹے ھی نفرتوں کے مگر یہ ھم ھیں کہ بانٹتے ھیں ' محبتوں کے گلاب اب بھی

ھُوا ھے بے نُور آنگنوں کی دُعا سے شب کو طلوع جس کا گُریز پا ھے ھمارے کچے گھروں سے وہ ماھتاب اب بھی

ھمیں خبر ھے یہاں کی اندھی ھوا برسنے سے روکتی ھے سخی سمندر تو بھیجتا ھے ھری رُتوں کے سحاب اب بھی

عجب ھیں ھم بھی کہ اتنے برسوں کی ٹھوکروں سے بھی کچھ نہ سیکھا وھی ھیں خوش فہمیاں ھماری ' وھی بھلی رُت کے خواب اب بھی

وہ جن کے شام و سحر ' مہکتے گلاب بخشیں گے بستیوں کو میں لکھ رھا ھوں لہو سے اپنے ' اُنہی رُتوں کا نصاب اب بھی

وہ مہرباں کس قدر ھے مجھ پر اُسے ھے کتنا خیال میرا مجھے تلاوت کو بھیجتا ھے جو موسموں کی کتاب اب بھی

مرے بدن میں لہو کی گرمی ھے اُس کی قُربت پہ دال رزمیؔ جسے چھپائے ھوئے ھے آنکھوں سے دوریوں کا نقاب اب بھی

Khadim razmi while reading a Ghazal
Khadim Razmi while collecting/searching material for his book " Khoyay huan ki talash/In search of lost ones"
Yearly poetry competition in memory of Khadim Razmi
A ghazal of khadim Razmi

کیا بکتے کہ ھم خود ھی کو درکار بہت تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم رزمی

کیا بکتے کہ ھم خود ھی کو درکار بہت تھے ورنہ یہاں اپنے بھی خریدار بہت تھے ۔۔۔۔۔۔ !

اس کارِ محبت میں تھے کچھ مرحلے وہ بھی جو سہل نظر آئے ' پہ دشوار بہت تھے  !

اک لطف تھا ان میں بھی جو ھم سہتے رھے ھیں ورنہ تو تری راہ میں آزار بہت تھے  !!!

حیرت ھے ترے عشقِ دل و جان طلب میں ۔۔۔ !! ھارے ھین وھی خود کو ؛ جو خود دار بہت تھے

ھر دور میں یہ کیا کہ ستم ٹوٹے انہی پر جی جان سے جو تیرے طرف دار بہت تھے

اب کس سے کہوں زخم یہ سب ان کی عطا ھیں جو لوگ بظاھر مرے غم خوار بہت تھے  !!!

مخلص ھی سہی مگر اس چشمِ جہاں میں یہ جرم کوئی کم ھے کہ نادار بہت تھے  !

باھر سے سلامت نظر آئے اُسے ورنہ ۔۔۔۔۔ ! اندر سے تو ھم لوگ بھی مسمار بہت تھے

اک روز اسے دھجیاں ھونا ھی تھا رزمی پگ ایک تھی وہ جس کے طلبگار بہت تھے


File:Jang.jpg
Jang article about khadim razmi

عجب رنگوں کا منظر کھل رھا ھے مرے اندر نیا در کھل رھا ھے ۔۔۔۔۔۔۔!

گلابی ھو رھی ھیں میری سانسیں یہ کس مٹھی سے پتھر کھل رھا ھے

رھا ھے جو ھمیشہ بند خود میں وہ اب مجھ پر برابر کھل رھا ھے

سرِ محفل تھا وہ سمٹا ھوا سا جو تنہائی کو پاکر کھل رھا ھے

بھرے آنگن میں خاموشی کا پیکر نکل کر گھر سے باہر کھل رھا ھے

سکندر بخت رکھتا ھے وہ لیکن فقیرِ رہگذر پر کھُل رھا ھے

زوالِ عمر کی رُت ھے کہ رزمی تھکن کا ایک دفتر کھل رھا ھے

خادم رزمی


Nawai Waqt article about khadim razmi

پیڑ ' پرندے ' شام ' صدائیں بستی کی ۔۔۔۔۔۔۔ " خادم رزمی "

پیڑ ' پرندے ' شام ' صدائیں بستی کی بھُولے بِسرے خواب ' فضائیں بستی کی

جی مہکاتی ' کھیتوں ' کھلیانوں کی باس سپنا سپنا کھیل ' ھوائیں ' بستی کی

پچھم سمت کو پنچھی جاتے شام ڈھلے اب تو اکثر یاد دلائیں بستی کی  !!!

اب تو ان کے قصے ختم نہیں ھوتے ۔۔۔۔ !!! ھمیں مِلیں جب بوڑھی مائیں بستی کی

ھم بے خوف پھریں شہروں صحراؤں میں اپنے ساتھ ھیں نیک دعائیں بستی کی

پھیلا دیکھیں دل میں ایک اُجالا سا آنکھوں میں جب یاد جگائیں بستی کی

مولا ' سونا فصلیں اس کے دامن میں ربا ' ساری دُور بلائیں بستی کی

مالک ان کی جھولی بھر دے خوشیوں سے وہ جو آ کر خیر سنائیں بستی کی  !!!

حبسِ شہر سے جنہیں نجات کی خواھش ھے رزمی ان کو راہ دکھائیں بستی کی  !!!

Ahmad Nadeem Qasmi,Khadim Razmi and Qamar Raza Shahzad in an all Pakistan Mushaira



" ایک پیلی نظم " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم رزمی

تم نے جو اب کے ساون میں برگ و ثمر سے خالی خالی اک ویران شجر دیکھا ھے بیتے چیت کی بات ھے اس پر

سبز رُتوں کا پات قبیلہ رھتا تھا رنگ برنگے مہکے مہکے پھول ' پرندے اس کو اپنا گھر کہتے تھے دُھوپوں ' دُھولوں ' پیاس بھرے صحرا سے آنے والے کربیلے لہجوں کے راھی اکثر اس چھنتار کے نیچے آ رُکتے تھے نئے سُلگتے رستے پر چلنے سے پہلے اس کی چھاؤں میں دم لیتے تھے اور اُس کا من ٹھارنے والا ٹھنڈا ٹھار گھنیرا سایہ ممتا کے آغوش کی صورت وا رھتا تھا

اب کے ساون میں تم نے جو برگ و ثمر سے خالی خالی پیلی ' مٹیالی سی اُجڑی شاخوں والا اک ویران شجر دیکھا ھے

Murtaza Barlas,Khadim Razmi with other poets

جدائی کی کسک دیوار و در میں چھوڑ آئے ھیں ۔۔۔ " خادم رزمؔی "

جدائی کی کسک دیوار و در میں چھوڑ آئے ھیں تمنائیں پلٹ آنے کی' گھر میں چھوڑ آئے ھیں

ھمیں اک بے کلی میں مبتلا رکھتی ھے ھر ساعت دمِ رخصت جو الجھن اُس نظر میں چھوڑ آئے ھیں

لئیے پھرتا ھے انگلی تھام کر وہ دشتِ غربت میں ستارہ سا جو اک اُس چشمِ تر میں چھوڑ آئے ھیں

ہرے کھیتوں میں لگتا ھے بھلا کس طرح جی ان کا پرندے ' وہ جو بچوں کو شجر میں چھوڑ آئے ھیں

کبھی جاگے تو پورا گھر جلا دیں گے گھڑی بھر میں وہ شعلے ' راکھ پہنے اِک شرر میں چھوڑ آئے ھیں

کنارے پر اُتر کر بھی بُھلا پائے نہیں جن کو نہ پوچھو کون سی دھشت بھنور میں چھوڑ آئے ھیں

دل و داماں تہی لے کر پلٹ آئے ھیں بستی میں کمائی عمر بھر کی ' پھر سفر میں چھوڑ آئے ھیں

ھیں شرمندہ بہت ' اب کے برس بھی اپنے آنگن میں کہ گھر لانے کی چیزیں ' رھگزر میں چھوڑ آئے ھیں

لئے پھرتے ھیں ساتھ اپنے فقط خالی بدن رزمؔی

کہ اپنی رُوح کو ھم اُس نگر میں چھوڑ آئے ھیں
تاریخ
منبع اثر شخصی
پدیدآور Naeem Rizwan and Farrukh Munir

اجازه‌نامه

من، صاحب حقوق قانونی این اثر، به این وسیله این اثر را تحث اجازه‌نامهٔ ذیل منتشر می‌کنم:
w:fa:کرییتیو کامنز
انتساب انتشار مشابه
این پرونده با اجازه‌نامهٔ کریتیو کامانز Attribution-Share Alike 3.0 سازگار نشده منتشر شده است.
شما اجازه دارید:
  • برای به اشتراک گذاشتن – برای کپی، توزیع و انتقال اثر
  • تلفیق کردن – برای انطباق اثر
تحت شرایط زیر:
  • انتساب – شما باید اعتبار مربوطه را به دست آورید، پیوندی به مجوز ارائه دهید و نشان دهید که آیا تغییرات ایجاد شده‌اند یا خیر. شما ممکن است این کار را به هر روش منطقی انجام دهید، اما نه به هر شیوه‌ای که پیشنهاد می‌کند که مجوزدهنده از شما یا استفاده‌تان حمایت کند.
  • انتشار مشابه – اگر این اثر را تلفیق یا تبدیل می‌کنید، یا بر پایه‌ آن اثری دیگر خلق می‌کنید، می‌‌بایست مشارکت‌های خود را تحت مجوز یکسان یا مشابه با ا اصل آن توزیع کنید.

عنوان

شرحی یک‌خطی از محتوای این فایل اضافه کنید

آیتم‌هایی که در این پرونده نمایش داده شده‌اند

توصیف‌ها

این خصوصیت مقداری دارد اما نامشخص است.

source of file انگلیسی

تاریخچهٔ پرونده

روی تاریخ/زمان‌ها کلیک کنید تا نسخهٔ مربوط به آن هنگام را ببینید.

تاریخ/زمانبندانگشتیابعادکاربرتوضیح
کنونی‏۱ سپتامبر ۲۰۱۳، ساعت ۲۳:۲۵تصویر بندانگشتی از نسخهٔ مورخ ‏۱ سپتامبر ۲۰۱۳، ساعت ۲۳:۲۵۹۲۱ در ۱٬۱۷۶ (۷۰۹ کیلوبایت)Naeem RizwanUser created page with UploadWizard

این پرونده در هیچ صفحه‌ای به کار نرفته است.

فراداده